Thursday, October 29, 2009
Hillary Clinton in Govt College Lahore, Our opologizing behave, ہیلری کلنٹن ۔ گورنمنٹ کالج لاہور ۔ ہمارا معزرت خواہانہ رویہ
Hillary Clinton in Govt College Lahore, Our opologizing behave
ہیلری کلنٹن ۔ گورنمنٹ کالج لاہور ۔ ہمارا معزرت خواہانہ رویہ
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہماری قوم کا رویہ مغرب کے سامنے ہمیشہ معزرت خواہانہ رہا ہے، ایسا ہی کچھ ایک بار پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوا، جہاں امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کی تقریر کے بعد طلبہ ان سے سوالات کررہے تھے، سوالات کا سیشن مختصر تھا، اور تین چار طلبہ کو سوالات کے لئے منتخب کیا گیا تھا، فی البدیہہ سوال کی اجازت نہ تھی، سوالات جو کئے جانے تھے، ان کی منظوری بھی گورنمنٹ کالج لاہور کے قابل اساتذہ نے دی ہوگی۔۔ خیر بات ہورہی تھی معزرت خواہانہ رویئے کی، وہی ہم نے ایک طالبہ کے سوال میں دیکھا، طالبہ نے ہیلری سے کہا کہ
" (سوال کا مفہوم عرض ہے) یقین کیا جائے ہم دہشت گرد نہیں ہیں ، ہم اچھے لوگ ہیں ، ہمارا امیج خراب کیا جارہا ہے، آپ ہیلری صاحبہ ہمارا امیج بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں" ۔ ۔ ۔ ۔
انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ دنیا ہمیں دہشت گرد کہے نہ کہے ، ہم خود کو دہشت گرد سمجھ رہے ہیں اور خود کو دہشت گرد کہلوانے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ ہم احساس کمتری کی ماری قوم ، ایسے وقت میں کہ جب دنیا دہشت گردی کے خلاف ہمارے ساتھ ہے، اور دہشت گردوں کو پاکستانی قوم سے الگ سمجھتی ہے ، ہم عالمی سطح کے فورمز پر یہ دہائیاں دے رہے ہیں خدارا ہمیں دہشت گرد مت کہو۔ ہماری قوم میں کامن سینس کی واقعی کمی ہے، زرا دیکھیں ، مثال کے طور پر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ بھارتی حکومت ہمارے خلاف ہے، لیکن بھارتی عوام حکومت کے رویئے کی سو فیصد ترجمانی نہیں کرتے ، وہ بھی ہماری عوام کی طرح دوستی کے حق میں ہیں ، اسی طرح ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ پاکستان عوام کو کو ئی بھی برا بھلا نہیں کہہ رہا، کہا تو حکومت کو بھی برا نہیں جارہا ، عالمی برادری بھی ہمارے انتہا پسندوں کو برا سمجھتی ہے اور انھیں پاکستانی قوم سے الگ سمجھتی ہے ۔
اس صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اگر ہم یہ ریلائز کرلیں تو بہت سی دوسری باتیں بھی آشکار ہونا شروع ہوجائیں گی ۔ یعنی پھر ہم ہیلری سے یہ نہیں کہیں گے کہ ہمیں دہشت گرد نہیں کہیں ، بلکہ پھر ہم سر اٹھا کر یہ سوال کریں گے کہ
" دیکھیں ہیلری صاحبہ یہ جنگ ہم نے آپ کے لئے شروع کی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہماری جنگ بن گئی ، دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں آپ سے ذیادہ ہمیں نقصان اٹھانا پڑا ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس بات کو ریلائز کریں گی ، ساتھ ہی آپ یہ بھی ریلائز کریں گی کہ دہشت گردی کا عزاب آپ کی ان غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے مسلط ہوا ہے، جن کی بنا پر ساٹھ سال سے زائد عرصہ سے مسئلہ فلسطین اور کشمیر سلگ رہے ہیں ، جہاں خون انساں پانی سے بھی ارزاں ہے، ایسا کیوں ہے "
معزرت خواہانہ رویہ ہم اپنی حکومت اور عوام میں کوئی آج سے نہیں دیکھتے آرہے ، یہ نتیجہ ہے ہماری مختصر تاریخ میں وقوع پزیر ہونے والے حکمرانوں اور دیگر رہنمائوں کے رویئوں کا جنھیں نہ خود پر اعتماد تھا ، اور جو نہ ہی پاکستانی قوم کو کسی قابل سجمھتے تھے ، حکمرانی پر فائز ہونے والے دولتمند ،صنعت کار اور جاگیر دار عوام کو اپنی مل یا جاگیر کے ملازموں سے ذیادہ حیثیت نہیں دے سکتے تھے، سیاست ان کا مشن نہیں رہا، ان کا نشہ ہے یہ ، حکمرانی کا نشہ ۔ اسی طرح ہماری قوم بھی خود کو سمجھنے کو تیار نظر نہیں آتی ، اسے نہ اپنی ظاقت کا احساس ہے، نہ اہمیت کا نہ ہی ووٹ بینک کا ، نتیجہ یہ ہے کہ احساس محرومی کاسرچشمہ یہ یہی معزرت خواہانہ رویہ مغرب کے روبرو تو ذیادہ ہی چھلک چھلک کر سامنے آتا ہے، آخر مغرب تو ہمارے آقائوں کا بھی آقا ہے نا۔۔
لیڈروں سے تو ہمیں کچھ توقع نہیں، لیکن عوام سے یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ خدارا کامن سینس کو ہاتھ سے مت جانے دیں ، سامنے کی بات پر پہلے غور کریں گہرائی میں جانا تو بعد کی بات ہے ، ہم نے کسی کا کچھ نہیں لیا، بلکہ دیا ہی دیا ہے ، اور آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہریوں اور فوجیوں کا جانی نقصان گنا جائے تو سب سے آگے ہم ہی ہیں ۔ اس صورتحال میں خدارا اب کوئی کسی غیر ملکی سے یہ نہ کہے کہ ہم سے دہشت گرد ہونے کا لیبل ہٹانے میں ہماری مدد کریں ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment